۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
حجت الاسلام تقی عباس رضوی

حوزہ/ امام رضا علیہ السلام کی زندگی کا ہر ایک پہلو ہمارے لئے ایک مثال ہے۔ ایک نمونہ ہے اور ایک قابل تقلید عمل ہے اور ہمیں اپنی فردی اور اجتماعی زندگی میں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے معروف محقق و مؤلف اور اہلِ بیت فاؤنڈیشن کے نائب صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امام رضا علیہ السلام کی زندگی کا ہر ایک پہلو ہمارے لئے ایک مثال ہے۔ ایک نمونہ ہے اور ایک قابل تقلید عمل ہے اور ہمیں اپنی فردی اور اجتماعی زندگی میں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ اگر امام رضا علیہ السلام نے اپنی سیاسی بصیرت کے صلاح کا استعمال نہ کیا ہوتا تو بنی عباس کی سلطنت پر قابض مامون کے چہرے پر پڑے تقدس مآبی اور اہلِ بیت رسول سے محبت و ہمدردی پر مبنی جھوٹ، نفاق اور عوام فریبی کا پردہ فاش نہ ہوتا۔

مولانا تقی عباس نے کہا کہ جس ڈھنگ سے مامون عباسی نے خانوادہ رسول سے محبت و عقیدت، رشتہ داری اور نفاق کے لباس میں خود کو ملبوس کر رکھا تھا اسلامی دنیا خاص کر عالم تشیع میں اسے لوگ سب سے بڑا عالم و آیت اللہ سمجھ بیٹھتے مگر! امام کی حکمت عملی نے اسلام اور اہلِ بیت مخالف، اقتدار کے حریص بنی عباس کے اس سپوت کی مکاری اور نفاق کو زندہ درگور کردیا اور دین کی طرف بارگشت، جاہلیت سے آزادی اور اہل بیت علیہم السلام کی خونخواہی کے جھوٹے نعروں کی پول کھول دیا۔

مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سماج میں کچھ لوگ بنی امیہ و بنی عباس کے زرخرید صاحبانِ قلم کے لکھے روداد سے متاثر ہو کر اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ بنی عباس کے امرا میں ہارون اور مأمون سب سے بہتر امیر تھے جنہوں نے اہل بیت علیہم السلام کے فضائل و کمالات کا اعتراف کیا ہے اور ہارون کے بعد مأمون عباسی نے امام کو اپنا ولی‌ عہد بھی بنایا ہے جو دو خاندانوں کے ما بین اچھے روابط کے عکاس ہیں! تو یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ ولی عہدی کی پیش کش ان کی مجبوری تھی کیونکہ عباسیوں کے اندرونی جھگڑوں اور مأمون کی اپنے بھائی امین کے ساتھ جنگ اور امین کا قتل اور اس کا سر قلم کیا جانا وہ عوامل تھے جن کی بنا پر مأمون کی سلطنت عباسیوں کے درمیان متزلزل ہوگئی تھی.اب مأمون اس حالت سے نکلنے کی کوشش میں حضرت علی (ع) کی محبت کا دعویدار ہوا اور عوام کے ساتھ بھی نرمی برتنے لگا اور یہ ظاہر کرنے لگا کہ وہ آل نبی (ع) کا بہت بڑا عقیدت مند ہے! اس نمائش سے مأمون کا مقصد لوگوں کو فریب دینے کے سوا کچھ بھی نہ تھا. اس نے اسی مکارانہ پالیسی کے تحت امام رضا (ع) کو خلافت کی پیشکش نہیں کی بلکہ آپ (ع) کو ولی‏عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا تاکہ اس کے ذریعے وہ بساط حکومت پر قابض رہ سکے... جیسا کہ خود امام علیہ السلام نے  ولی‏عہدی کی دستاویز پر یہ لکھ کہ: «ہمارے پاس علم لدنی ہے جو ہمیں ورثے میں ملا ہے اور میں اس علم کی روشنی میں بخوبی جانتا ہوں کہ یہ امر عملی صورت نہیں اپنا سکے گا مگر میں یہ عہدہ قبول کرنے پر مجبور ہوا ہوں» اس طرح امام (ع) نے مأمون کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔

ہندوستان کے برجستہ عالم دین کا کہنا تھا کہ عصر حاضر میں ہمیں اور ہمارے ان علماء کو کہ جو کرپٹ حکمرانوں، سیاستدانوں اور فاسق و فاجر حکومت کے آگے پیچھے جی حضوری کو اپنے لئے فخر و مبہات سمجھتے ہیں انہیں یہ جان لینا ضروری ہے کہ آئمہ معصومین علیهم السلام کبھی بھی فاسق و فاجر حکام کی تأئید اور حمایت نہیں کرتے تھے اور کبھی بھی ان کے کردار سے خوشنودی کا اظہار نہیں کیا!۔

جس کی واضح مثال امام رضا علیہ السلام کی فردی و اجتماعی سیرت رہی ہے۔
 
مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ عہد میں امام رضا اور آپ کے آباؤ اجداد علیہم السلام کی سیرت و تعلیمات پر عمل پیرا علماء و افاضل کرام  مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے دانشوروں کے ساتھ نشست و برخاست کا سلسلہ جاری رکھ کر انہیں اسلام اور قرآن کے ابدی پیغام کو سنایا جائے اسی طرح جب مأمون نے امامؑ سے اسلام ناب محمدی کے بارے میں بتانے کا مطالبہ کیا تو آپ نے توحید اور پیغمبر اسلام کی نبوت کے بعد امام علیؑ کی جانشینی پھر آپ کے بعد آپ کی نسل سے گیارہ اماموں کی امامت پر تصریح فرماتے ہوئے فرمایا کہ امام القائم بامر المسلمین یعنی امام مسلمانوں کے امور کا اہتمام کرنے والا ہے۔

آخر میں عالم آل محمد، ثامن الحجج فرزند رسولۖ حضرت امام رضا علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت کے موقع پر عشرہ کرامت کے جاری پر مسرت ایام کی مناسبت عالم اسلام بالخصوص اہل بیت اطہار علیہم السلام کے پیروکاروں کی خدمت میں تہہ دل سے مبارکباد پیش ہے

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .